فائل فوٹو

اسلام آباد: افغان امن عمل کے آغاز اور افغان طالبان سے جلد مذاکرات کے پیش نظر طالبان کے دوسرے اہم ترین سابق رہنما عبدالغنی برادر کو افغان سرحد سے قریبی شہر پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔

افغانستان اور امریکا کا ماننا ہے کہ برادر دس سال سے زائد عرصے سے جاری افغان جنگ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اثر ورسوخ کی بدولت سابق طالبان کمانڈرز کو نہ لڑنے آمادہ کر لیں گے۔

لیکن 20 ستمبر کو پاکستان کی جانب سے برادر کو رہا کیے جانے کے بعد سے اب تک ان کی نقل و حرکت کو خفیہ رکھا جا رہا ہے، وہ ابھی تک پاکستان میں نظر بند ہیں جس سے ان کی جانب سے امن عمل میں کردار ادا کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

ایک سینئر پاکستانی دفاعی آفیشل نے رائٹرز کو بتایا کہ برادر کو کراچی میں ایک محفوظ گھر سے دوسرے منتقل کر دیا گیا تھا اور اب انہیں پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔

آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اپنے دوستوں سے مستقل رابطے میں ہیں اور مذاکراتی عمل صحیح سمت میں جاری ہے۔

ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ آیا انہوں نے کس سے اور کہاں ملاقات کی اور وہ طالبان سے ملاقات کے لیے افغانستان جائیں گے یا پشاور میں ہی رہیں گے۔

ایک انٹیلی جنس آفیشل نے اس بات کی تصدیق کی کہ برادر پشاور میں ہیں تاہم اس حوالے سے انہوں نے مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

برادر ایک دور میں طالبان کے مرکزی رہنما ملا عمر کے قریبی دوست تھے اور ملا عمر نے ہی انہیں برادر یا بھائی کا لقب دیا تھا، وہ اب بھی طالبان میں کافی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

برادر افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے قبیلے سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ایک دفعہ امن تجاویز کے ساتھ کابل حکومت سے بھی ملے تھے۔

کچھ لوگوں کو برادر کے بطور امن مذارات کار کردار پر خدشات ہیں جہاں ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنے سال قید رہنے کے باعث شاید اب ان کا شدت پسندوں پر ماضی جیسا اثر و رسوخ نہیں رہا۔

اس کے علاوہ کچھ لوگوں کے یہ بھی خدشات ہیں کہ آیا اہم ترین فیصلہ ساز ملا عمر ان سے بات چیت پر آمادہ ہوں گے یا نہیں۔

بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ عبدالغنی برادر کے پاکستانی حکام سے قریب ہونے کے باعث سخت گیر شدت پسند انہیں یقینی طور پر شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے۔

افغانستان اپنے پڑوسی ملک کو اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوششوں کی وجہ سے شکوک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس کا مطالبہ ہے کہ برادر کو ان کے حوالے سے کیا جائے اور جب تک وہ پاکستانی سرزمین پر ہیں انہیں رہا تصور نہیں کیا جائے گا۔