فائل فوٹو --.

فائل فوٹو --.

پچھلے ہفتہ میں نے ایک بلاگ لکھا تھا جو نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ان طالبات کے بارے میں تھا جن پر جرمانہ اس لیے عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے دوپٹے نہیں اوڑھے تھے- میں نے اس پابندی کا بھی ذکر کیا تھا جو اس یونیورسٹی نے جینز اور ٹائٹس پہننے پر عائد کی  تھی-

اس پر شدید غم و غصہ کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا- درجنوں لوگوں نے جو خود کو عورتوں کی شرم و حیا کا پاسباں سمجھتے ہیں ان کی اصلاح کی تجاویز بھیجیں اور یہ بھی بتایا کہ انھیں کس قسم کی سزائیں دی جائیں-

چند لوگوں نے یہ لکھا کہ دوپٹوں/اسکارف کی پابندی بزنس اسکول میں اس وجہ سے ہے کہ یہ ان کا "فارمل ڈریس" ہے- جب کہ دوسروں نے اس بات پر اصرار کیا کہ اس وقت زلزلوں اور ہلاکتوں پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے جس نے ملک کو لہولہان کر رکھا ہے بجائے اس کے کہ اخلاقیات کی چوکیداری کی جائے جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے-

بہت سے لوگوں نے ایمانداری سے کام لیتے ہوئے کہا کہ عورتوں کو بتانا ضروری ہے کہ ان کا طرز عمل اسکول میں یا کہیں اور کیسا ہونا چاہئے- بہت سوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حق مردوں کو اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں دیا گیا ہے- بہرحال جس رد عمل کا اظہار ہوا اس سے مجموعی طورپر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انتشار اور افراتفری کو ختم کرنے کے لئے عورتوں کو قابو میں رکھنا انتہائی ضروری ہے-

اس ہفتے ایک اور پابندی زیر بحث رہی- 3 اکتوبر 1913 کو حکومت سندھ نے یہ اعلان کیا کہ انٹرنیٹ کی بعض سروسز کے استعمال پر تین ماہ کی پابندی عائد کی جائیگی.

تشدد کا شکار اس صوبے کی حکومت کا خیال تھا کہ اسکائپ، وھاٹس ایپ، اور وائبر پر تین ماہ کی پابندی دہشت گردی کو ختم کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے- یہ تجویز وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے پیش کی ہے-

مختلف اخباری رپورٹوں کے مطابق اس مقصد کے لئے حکومت سندھ کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی منظوری حاصل کرنی ہوگی- پاکستان کے وزیر خارجہ چودھری نثار علی خان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر غور کرینگے-

ایک ایسے ملک میں جہاں انتخاب کی آزادی چھین لی گئی ہے اور اس بات کو مسترد کر دیا گیا ہے کہ فرد کا ضمیر اس کے اخلاقی عمل کو متعین کرتا ہے وہاں چند ہی لوگ ہونگے جو ایک اور پابندی پر اعتراض کرینگے-

"جینز" کی طرح اسکائپ اور وائبر بھی مغرب کی نقالی اور سیاہ کاری کی علامت ہے جسے متوسط طبقہ استعمال کرتا ہے- کراچی کے اس متوسط طبقے کے خاندان بٹے ہوتے ہیں جن کے بیٹے اور بیٹیاں غیر ممالک میں کام کرکے پیسے کماتے ہیں- ان لوگوں کے لئے ٹیکنالوجی کے یہ سستے ذرائع دوریوں کی تکلیف برداشت کرنے کی طاقت فراہم کرتے ہیں-

اب اس ریاست نے جو غریبوں کی طرف دھیان نہیں دیتی  اور جسے دولتمند چلا رہے ہیں اس طبقے کے لوگوں پردہشت گردی سے نمٹنے کا بوجھ لاد دیا ہے- پاکستان میں یہ طریقہ کس قدر آسان ہے- لڑکیاں جینز نہ پہنیں تو یہ صحیح معنوں میں ایک اسلامی معاشرے کی ضمانت ہوگی، اگر اسکائپ اور وائبر نہ ہوں تو دہشت گردی کو یقینی طور پر ختم کیا جاسکتا ہے-

مایوس لوگوں کا کہنا کچھ اور ہے- اس کی مخالفت کرنے والے پریشان ہوکر کہتے ہیں عرتوں سے یہ کہنا کہ وہ کیا پہنیں اور کیا نہیں، اور ٹکنالوجی کے مختلف ذریعوں پر پابندی لگانا کنٹرول کرنے کا گھٹیا طریقہ ہے جو ایک غیر موثر ریاست کی نااہلیت اور کمزوری کو ظاہر کرتا ہے-  ایک ایسی ریاست جو عورتوں کو جسمانی تحفظ فراہم نہیں کرسکتی بدقسمتی کا شکار ہونے والی مظلوم عورتوں پر الزام تراشیوں کے نئے نئے راستے تلاش کرتی ہے-

چالاکی سے کام لیتے ہوئے وہ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ جو لڑکیاں دوپٹے نہیں پہنتیں اور جینز پہنتی ہیں وہ  مردوں کو جنسی لذت سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتی ہیں- ان کے مڑے تڑے لفظوں میں اسکائپ اور وائبر کا مطلب ہے، دہشت کا ہتھیار-

ان کے چھوٹے چھوٹے متواتر حملے جس میں کبھی تو کسی لباس پر پابندی لگائی جاتی ہے، غیر اخلاقی فلموں کی وجہ سے یو ٹیوب بند کر دیا جاتا ہے اور غیر اخلاقی تعلقات کی روک تھام کے لئے رات گئے  بھیجے گئے پیغامات کو ممنوع قرار دیا جاتا اور دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے اسکائپ بند کردیا جاتا ہے. شہری خوف زدہ ہوکر خاموشی سے ہتھیار ڈال دیتے ہیں کہ  یہ سب کچھ ہمارے "اچھے" کے لئے ہورہا ہے، یہ الگ بات کے اس 'اچھائی' کا فیصلہ ہمیشہ دوسرے ہی کرتے ہیں-

چالاکی سے کام لیتے ہوئے ریاست کا بوجھ جسکی ذمہ داری ہے کہ وہ تحفظ اور سلامتی فراہم کرے، شہریوں پر منتقل کر دیا جاتا ہے جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے بلا چوں چرا تمام احکامات کی تعمیل کریں؛

اگر آپ جینز پہنینگی تو آپ ریپ کو دعوت دینگی، اگر آپ کو اسکائپ اور وائبر پر پابندی لگانے پر اعتراض ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دہشت گردی کی، گولیوں کی اور بموں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں-

اطاعت کی زبان میں اس کا مطلب ہے: انتخاب کی آزادی کے حق کو محض اس مطالبہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے کہ وہی کرو جو غلط ہے- جیسا کہ جینز پر پابندی لگانے اور دوپٹہ نہ پہننے پر جرمانے کی حمایت کرنے والے ایک شخص نے لکھا "کیا آپ یہ چاہتی ہیں کہ ساری لڑکیان بکینی پہن کرکلاس روم میں آئیں؟"

میرا جواب ان کے لئے اور ان جیسے دیگر تمام لوگوں کے لئے ہے "نہیں" -- میں چاہتی ہوں کہ تمام شہریوں کا احترام کیا جائے اور انہیں اس بات کا حق دیا جائے کہ وہ وہی کریں جسے وہ ٹھیک سمجھتے ہیں نہ کہ وہ جو کرنے کے لئے انہیں مجبور کردیا جائے-


ترجمہ: سیدہ صالحہ