دائیں - والدہ شاہ زیب، بائیں - عافیہ صدیقی -- فائل فوٹو

دائیں - والدہ شاہ زیب، بائیں - عافیہ صدیقی -- فائل فوٹو

گزشتہ دنوں یونیورسٹی کے طالبعلم شاہ زیب خان کے والدین نے، جس کی موت پر پورے پاکستان میں جاگیرداروں اور امیروں کے ہاتھوں طاقت کے غلط استعمال پر غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی تھی، اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کر دینے کا فیصلہ کر لیا-

اس خاندان نے کئی دنوں پہلے عدالت میں اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کر دینا کا تحریری حلف نامہ جمع کروایا- جب جوان (اور اب معاف) مجرم عدالت سے باہر بڑے فخر کے ساتھ مسکراتے اور فتح کا نشان لہراتے نکلے جیسے وہ عظیم نیلسن منڈیلا کی کوئی بگڑی ہوئی شکل ہوں، تو مقامی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا سائٹس پر غم و غصہ اور مذمت کا آتش فشاں پھٹ پڑا-

اس غم و غصّے کی وجہ بالکل قابل فہم  ہے کیوں کہ ان  مبینہ مجرموں کے خلاف الیکٹرانک میڈیا اور سماجی ویب سائٹس پر ایک منظم اور جذباتی مہم چلائی گئی تھی- چناچہ جب اس بدقسمت نوجوان کی ماں کی طرف سے معافی کی رپورٹ ملی، تو یہ خبر سن کر بہت سے پاکستانیوں کو ایک ناگوار جھٹکا لگا-

لیکن اس خبر کے رد عمل میں الیکٹرانک میڈیا کا رویہ بھی اتنا ہی پریشان کن تھا-

جیسا کہ اخلاقیات اور نظریات کے حوالے سے بہت سے معاملات میں کوتاہ بینی، ملک کی بڑ بولی شہری کلاس کا ایک مخصوص ذہنی رجحان بن کر رہ  گیا ہے، ٹی وی اینکر اور رپورٹروں کا رویہ مقتول کی ماں کے ساتھ خاصا تلخ ہو گیا-

چونکہ نہ وہ کوئی سی آئی اے ایجنٹ تھی، نہ لبرل فاشسٹ، نہ کسی اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھتی تھی نہ مذہب سے، یا کسی اور سماجی و سیاسی پیراسائٹ سے، تو میڈیا نے اسے ایک 'بری ماں'، 'بد دیانت عورت' اور 'مامتا کے نام پر کلنک' کا خطاب دینا شروع کر دیا-

نام نہاد مذہبی علماء اور اسکالرز کو ٹی وی چننلز پر اس عورت کو لعنت ملامت کرنے کے لئے مدعو کیا گیا، اور قانونی ماہرین اس بات پر غور و غوض میں مصروف ہو گۓ کہ اس معافی کو قبول کرنے میں عدالت کا کیا کردار ہوگا-

جب آپ ایک ماں کو شیطان، اور سنگدل ڈائن جیسے خطاب ملتے دیکھتے ہیں تو سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں-

میرا مطلب یہ ہے کہ اگر انہوں نے (مبینہ طور پر) با اثر عناصر کے دباؤ میں آ کر اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کر دیا اور اس طرح وہ اس پورے معاملے کی ولن بن گئیں، تو پھر وہ اس ماں (عافیہ صدیقی) سے کس طرح مختلف ہیں جو (مبینہ طور پر) اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر افغانستان میں جہاد کے لئے روانہ ہو گئیں؟ جس کا اختتام  امریکی جیل میں ہوا؟

پھر بھی میڈیا کی نظر میں شاہ زیب کی ماں ایک ایسی عورت ہے جس کا خون سفید ہو گیا ہے جبکہ دوسری ماں، عافیہ صدیقی، ایک ایسی مظلوم جان ہے جو امریکی سامراج، تعصب اور سازش کا شکار بن گئی، آخر یہ کیسے ممکن ہے!؟

جس دن اس سنگدل ڈائن نے اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کیا تھا، تب مسلح فورسز کے ارکان، حکومت، اور حزب اختلاف جماعتیں، مسلح شدّت پسند گروہوں کے ساتھ فوری 'امن مذاکرات' کے لئے ایک قرارداد تیار کر رہی تھیں-

اب، اگر خدا نے چاہا، اور ان دیوانے عسکریت پسندوں کے ساتھ  یہ (کمزور ہی سہی) مذاکرات کا آئیڈیا، امن کو ممکن بنا بھی دیتا ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ریاست، حکومت اور پاکستانی عوام نے مسلح انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے پچاس ہزار سے زائد شہریوں، سیاستدانوں، فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی اموات کو معاف کر دیا-

خیر اس حوالے سے ماہرین اور امن مذاکرات کے علمبردار آپ کو یہ بتائیں گے کہ اس جنگ بندی اور معافی سے یہ بات یقینی ہوگی کہ مستقبل میں ان کھلم کھلا فسادی مومنوں کے ہاتھوں مسجدوں، مزاروں اور بازاروں میں مزید پاکستانیوں کا خون نہیں بہے گا-

امید کرتے ہیں کہ اس قرار داد سے یہی مقصد حاصل ہو، اور اسی کے لئے الیکٹرانک میڈیا  اتنی تعریف و تحسین کر رہا تھا اور پرامید تھا- اور یہ ٹھیک ہی تو ہے-

لیکن اگر، انتہا پسندوں کے ساتھ امن کا مطلب، ان ہزاروں والدین کی طرف سے اجتماعی معافی ہے جن کی اولادیں انتہاپسندوں کے ہاتھوں اور ڈرون حملوں میں ہلاک ہو گئیں، تو پھر ایک ماں کی طرف سے معاف کیے جانے میں آخر کیا برائی ہے؟

شاہ زیب قتل کیس کا انجام جس طرح ہوا اس سے مجھے سخت مایوسی ہوئی- لیکن اسے آپ میری کمزوری کہہ لیں، میں معافی اور در گزر کے ایک عمل کی تعریف جب کہ دوسرے پر تنقید نہیں کر سکتا-

میں ایک ماں کو لالچی، سنگدل ڈائن جبکہ دوسری کو قوم کی بیٹی نہیں کہہ سکتا-

یا تو ہمیں پکّے ارادے اور ایمانداری کے ساتھ  پوری طرح سے، تشدد کے عمل (اور بری مامتا) اور درگزر اور صلح پسندی کی مذمت کرنی چاہیے یا پھر چپ رہنا چاہیے- ہاں یہ اور بات ہے کہ شاید ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نا صرف الجھن کا شکار ہیں بلکہ ایک ایسی قوم اور ریاست ہیں جس نے اخلاقی منافقت کو ایک مقدس اور  فوری رد عمل کے فن میں تبدیل کر دیا ہے-


 ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں

ترجمہ: ناہید اسرار