پاکستان میں وزیرِ اعظم کے مشیرِ خارجہ، سرتاج عزیز۔ اے پی تصویر

پاکستان میں وزیرِ اعظم کے مشیرِ خارجہ، سرتاج عزیز۔ اے پی فائل تصویر

 اسلام آباد: صوبہ خیبر پختونخوا میں جان لیوا بم دھماکوں کے باوجود پاکستان کی حکومت شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی خواہش مند ہے۔

پچھلے ایک ہفتے کے دوران پشاور میں  تین بم حملوں سے ایک سو چالیس افراد ہلاک ہونے کے بعد مرکزی حکومت کے شدت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے سوالات نے جنم لیا تھا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امن مذاکرات کو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔

قومی سلامتی اور امور خارجہ پر وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر سرتاج عزیز نے جمعرات کو کہا کہ مذاکرات کو ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔

عزیز نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا:ان واقعات کے باوجود، مذاکرات کے آپشن پر کام ہونا چاہیے کیونکہ طالبان کے اندر کئی متحرک گروہ بات چیت کے حامی ہیں۔

'کچھ عناصر مذاکرات کے خلاف ہیں لیکن بات چیت کا مقصد یہی ہے کہ اس طرح کے واقعات ختم کیے جائیں'،

دو ہزار سات سے طالبان نے پاکستانی ریاست کے خلاف خونی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ امن کے لیے اس نے سخت شرائط کا مقرر کی ہیں جن میں قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی اور قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔

عزیز کے یہ بیانات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب گزشتہ روز ٹی ٹی پی نے کہا تھا کہ امن مذاکرات کے بارے میں غور صرف اسی وقت ہوگا جب قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے رکیں گے۔

 ادھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئرمین عمران خان نے طالبان سے نتیجہ خیز مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ امن دشمن مذاکرات سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کور کمیٹی کے پہلے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ وفاقی حکومت اس حوالے سے کچھ نہیں کررہی۔

ان کے مطابق ڈرون حملے اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور دھماکے میں ملوث ہونے کی طالبان نے تردید کی تھی اور یہ دھماکہ پاکستان دشمنوں نے کروائے تھے۔