Members of the United Nations Security Council raise their hands as they vote unanimously to approve a resolution eradicating Syria's chemical arsenal during the 68th United Nations General Assembly in New York

کل ستائیس ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اڑسٹھویں سالانہ اجلاس کے دوران سلامتی کونسل کے اراکین ایک میٹنگ میں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے لیے ایک قرارداد کی حمایت میں ہاتھ کھڑے کر رہے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

نیویارک: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمعہ 27 ستمبر کو متفقہ طور پر ایک تاریخی قرارداد منظور کی گئی، جس میں دمشق میں زہریلی گیس کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے شام کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیار کو تباہ کردے۔

اس تنازعے پر عالمی طاقتوں کے درمیان جاری تعطل دور ہوجانے کے بعد کونسل کی پہلی قرارداد منظور کی گئی ہے، تیس مہینوں سے جاری اس تنازعے میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون جو کونسل کے اس تعطل پر تنقید کررہے تھے، قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ "طویل عرصے کے بعد شام کے حوالے سے ایک امید افزاء خبر سننے کو ملی ہے۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ نومبر کے وسط میں ایک امن کانفرنس کا انعقاد کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

امریکہ اور روس کے درمیان تناؤ کے نتیجے میں سامنے آنے والی یہ دو ہزار ایک سو اٹھارویں قرارداد صدر بشارالاسد کے کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے دونوں اطرف سے پیش کیے گئے پلان پر عملی درآمد کے لیے مشترکہ قوت فراہم کرے گی۔

کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی اقوامِ متحدہ کی جانب سے تصدیق پر فوری طور پر پابندی نہیں لگائی گئی، لیکن روس اور امریکہ کے پلان کی خلاف ورزی کی صورت میں ممکنہ اقدامات کے لیے نئی ووٹنگ کی اجازت دی جائے گی۔

جنگ کے والے سے تقسیم اب واضح ہوگئی ہے، تاہم ان کے وزیرخارجہ کے تبصروں میں ووٹ کے بعد ہوگی، جن کا کہنا ہے کہ اگر شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنے کا اقدام نہیں اُٹھاتی ہے، تو پھر اتفاقِ رائے کے لیے ووٹنگ کی جائے گی۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پندرہ اراکین کی کونسل کو خبردار کیا  کہ ووٹنگ کے بعد امریکہ اور روس کا معاہدہ سربہ مہر ہوجائے گا۔

لیکن جان کیری نے قرارداد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کے اس اقدام سے  ثابت ہوا ہے کہ جب ہم مشترکہ اچھائیوں کے لیے سیاست کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں تو ہم کسی بڑے مقصد کے لیے تیار ہوپاتے ہیں۔

خودکار طریقے سے تادیبی اقدام نہیں ہوگا

روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے زور دیا کہ اس معاملے میں خودکار طریقے سے تادیبی اقدام نہیں اُٹھایا جائے گااور شامی حزبِ مخالف پر بھی یہ قرارداد مساوی طور پر لاگو ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کونسل ان کے خلاف کارروائی کرے گی جو تشدد کے ساتھ وابستہ ہیں، اور اس کو سوفیصد ثابت کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ روس شام کا اہم اتحادی ہے، اور اس نے شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف پابندیوں یا فوجی کارروائی کی کسی بھی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔

سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے ویٹو کا حق استعمال کرکے روس پہلے ہی شام کے خلاف مغرب کی تیار کردہ قراردادوں کو مسترد کرچکا ہے۔

اس قرارداد میں شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے کسی بھی قسم کے استعمال کی سختی کے ساتھ مذمت کی گئی ہے، خاص طور پر اکیس اگست 2013ء کو ہوئے حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرارد دیا گیا ۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ دمشق کے مضافاتی علاقے گھؤٹا میں اس حملے سے چودہ سو افراد ہلاک ہوئے، اس نے بشارالاسد کی حکومت کو سارین گیس کے حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا، اور اس حملے کے جواب میں ایک فوجی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔

شامی حکومت نے اپنی ذمہ داری سے انکار کرچکی ہے۔ اگر شام قرارداد رپر حسب ہدایت عمل نہیں کرتا تو سلامتی کونسل کے اراکین اس بات پر رضامند ہےہیں کہ اقوامِ متحدہ کے ساتویں چیپٹر کے  تحت اقدامات اُٹھائیں جائیں۔

شام کو حملوں کی جوابدہی کرنی ہی پڑے گی!

اقوامِ متحدہ کا چارٹر پابندیوں یا فوجی کارروائی کی اجازت دے سکتا ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ روس اس پر غضبناک ہوکر اپنے اتحادی کے خلاف کسی قسم کی بھی فوجی کارروائی کی مخالفت کرے گا۔ تمام فریقین اس بات پر رضامند ہیں کہ نئی کارروائی کے لیے نئے ووٹ کی ضرورت ہوگی۔

روس نے یورپی طاقتوں برطانیہ اور فرانس کی جانب سے گھؤٹا حملے کو بین الاقوامی جرائم کی عدالت میں لے جانے کو بھی مسترد کردیا تھا۔

اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے ذمہ دار کو سخت سزا دی جائے  اور اس کا سخت احتساب کیا جانا چاہئیے۔

ہیگ میں کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف مزاحمت کی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) نے امریکہ اور روس کے اسلحہ سے پاک کرنے کے منصوبے کو تسلیم کرتے ہوئے چند گھنٹے پہلے کیے گئے ایک فیصلے کی رسمی طور پر توثیق کی۔

اس منصوبے میں شام سے کہا گیا ہے کہ وہ تقریباً ایک ہزار ٹن کے کیمیائی ہتھیار وں کو 2014ء کے وسط تک عالمی کنٹرول میں دے دے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹائم ٹیبل بہت زیادہ تنگ ہے۔

توقع ہے کہ عالمی ماہرین شام میں اپنا کام اگلے ہفتے سے شروع کردیں گے۔ برطانیہ اور چین نے اسلحہ تلف کیے جانے کی اس کارروائی کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔

بان کی مون کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کے ممکنہ حد تک شفافیت اور احتساب کے ساتھ خاتمے کی یقین دہانی کرائے گی۔

بان کی مون نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نومبر کے دوران شام میں امن کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نومبر کے وسط میں ایک کانفرنس کا ارادہ رکھتے ہیں، متصادم فریقین کے درمیان  نیک نیتی کی بنیاد پر بات چیت کی یقین دہانی کے لیے برطانیہ ، چین، فرانس، روس اور امریکا کے وزرائے خارجہ رضامندی ظاہر کرچکے ہیں۔

پہلی امن کانفرنس جون 2012 میں منعقد ہوئی تھی، لیکن شامی حزبِ مخالف اور عالمی برادری کے درمیان اختلافات کے باعث اس کے فیصلوں کی پیروی نہیں کی گئی تھی۔

سیاسی مبصرین کاکہنا ہے بان کی مون شام کے لیے اپنے امن کے مندوب لخدار براہیمی سے اگلے ہفتے ایک میٹنگ کی تاریخ طے کرنے کے لیے رابطہ شروع کریں گے، اور وہ نئے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

سلامتی کونسل کی قرارداد 2012ء کی کانفرنس کے اعلامیہ کی معاونت کرتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ مکمل انتظامی اختیارات کے ساتھ شام میں عبوری حکومت قائم کی جانی چاہیئے۔

اس کے علاوہ نئی امن کانفرنس میں اس بات کا تعین بھی کیا جائے گا کہ کیے گئے فیصلوں پر کس طرح عملدرآمد کیا جائے۔

اس سے قبل دمشق کے شمال میں ایک کار بم دھماکے سے تقریباً تیس افراد ہلاک ہوگئے  اور حکومت کے فضائی حملے گیارہ ہلاکتیں مزید ہوئیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران قتل و غارت گری کا سلسلہ طویل عرصے سے اب بھی جاری ہے۔

بان کی مون کا کہنا ہے کہ "ہمیں شام میں جاری بموں ، ٹینکوں، گرینیڈ اور بندوقوں کے ذریعے قتل و غارتگری کے سلسلے کو کسی صورت نہیں بھولنا چاہئیے۔"