بجلی کی قیمتوں پر نظرثانی سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کی گئی ہیں، چنانچہ اب مڈل کلاس سے بارہ روپے فی یونٹ وصول کیے جائیں گے۔ —. اللسٹریشن: خدا بخش ابڑو
اسلام آباد: کل بروز جمعہ گیارہ اکتوبر کو وزارت پانی و بجلی نے بجلی کی قیمتوں پر نظرثانی کا ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا، بجلی کے یہ نرخ نومبر سے لاگو ہوں گے۔
بجلی کی ان نئی قیمتوں کا اطلاق خیبر پختونخوا پر نہیں ہوسکے گا، اس لیے کہ پشاور ہائی کورٹ نے صوبے میں بجلی کی شرح میں اضافے کے خلاف ایک حکم امتناعی کرچکی ہے۔
بجلی کے نرخوں پر نظرثانی سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کی گئی ہیں۔ ایک ماہ قبل حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں کیے گئے بھاری اضافے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے یہ ہدایات جاری کی تھیں۔
جب نیپرا نے ایک یونٹ سے پچاس یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کے گروپ کے لیے چار روپے فی یونٹ مقرر کیے تھے، حکومت نے فیصلہ کیا ہےکہ اس کو سبسڈی کے ذریعے کم کیا جائے گا اور اب اس گروپ کے صارفین سے دو روپے فی یونٹ وصول کیے جائیں گے۔
اکیاون یونٹس سے سو یونٹس بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے نیپرا نے گیارہ روپے فی یونٹ کی سفارش کی تھی، لیکن حکومت نے اب اس گروپ کے صارفین کے لیے پانچ روپے انیاسی پیسے فی یونٹ مقرر کیے ہیں، اور قیمت کے اس خسارے کو حکومت سبسڈی کے ذریعے پورا کرے گی۔
بجلی کے ایک سو ایک سے دو سو یونٹس خرچ کرنے والے صارفین کے گروپ کے لیے نیپرا نے چودہ روپے فی یونٹ کے نرخ کی سفارش کی تھی، لیکن حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اس گروپ کے صارفین سے آٹھ روپے گیارہ پیسے فی یونٹ وصول کیے جائیں گے، اور آنے والے فرق کو سبسڈی کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
ایسے صارفین جو دو سو ایک سے تین سو یونٹس کے درمیان بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کے نرخ بارہ روپے نو پیسے فی یونٹ ہوجائیں گے۔ ایک مہینے میں تین سو ایک یونٹس سے سات سو یونٹس تک بجلی کا استعمال کرنے والے صارفین کے لیے نیپرا نے سولہ روپے فی یونٹ مقرر کیے تھے، اور یہی اسی نرخ سے بجلی کی قیمت صارفین سے وصول کی جائے گی۔ سات سو یونٹس سے زیادہ بجلی استعمال کرنےوالوں سے اٹھارہ روپے فی یونٹ کی شرح سے بجلی کی قیمت وصول کی جائے گی۔
حکومت نے تخمینہ لگایا ہے کہ بجلی کی شعبے کو دی جانے والی کل سبسڈی 2013-14ء کے دوران 168 ارب روپے تک جاپہنچے گی۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ سبسڈی کی رقم میں مالی سال کے اختتام تک اضافہ ہوسکتا ہے۔
No comments :
Post a Comment