تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود۔ فائل فوٹو اے ایف پی

ایک اور دن، ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک اور بیان، اگرچہ یہ زیادہ تو واضح نہیں لیکن پھر بھی عسکریت پسندوں کے ایجنڈے کو بہت خوب عیاں کرتا ہے۔

اس مرتبہ قائد، امیر ٹی ٹی پی حکیم اللہ محسود خود بولے۔ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے بنیادی نکتہ بیان کیا کہ پاکستانی ریاست غیرشرعی ہے، اس لیے وہ اوراُن کے ساتھی اس کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اس دعوے پر غور کیجیے۔ ٹی ٹی پی حکومت، کسی ادارے، سیاسی جماعت یا پھر کسی گروہ کے خلاف نہیں بلکہ خود تصورِ پاکستان کے خلاف لڑرہی ہے۔

نظام کا تختہ پلٹ دو، جمہوریت مسترد، آئین ردی کاغذ کا پُلندہ اور ان سب کا متبادل اسلام کا وہ خود ساختہ شرعی ورژن، جو طالبان کی ہاں اور ناں پر استوار ہے، جسے پاکسانیوں کی اکثریت جانتی بھی نہیں۔ یقیناً یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں۔

 کُل جماعتی کانفرنس کی قرارداد نے ملک سے کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات پہلا آپشن ہے لیکن اس کی ہر تشریح میں، مذاکرات صرف درمیان کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ اس سے کیا حاصل ہوسکے گا، طالبان جو کچھ چاہتے ہیں کیا وہ ریاست قبول کرسکتی ہے؟

کیا جمہوریت اور شاید آئین بھی قابلِ بحث ہیں؟ طالبان کے مطالبات سامنے آنے کے بعد ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں جو انہیں جائز سمجھتے ہوئے، پہلے آپشن کے طور پر، طالبان سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال سکے۔

 یا پھر تشدد پر اجارہ داری رکھنے کا اصول ریاست کو اجازت دے کہ وہ اس پر پانی ڈالے یا وہ سرکاری حکّام کو اجازت دیں کہ ریاستی سلامتی کے ذمہ دار ادارے نجی مسلح دستوں  کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول پر مفاہمت رکھ سکیں؟

 شاید مذاکرات کے حامی سمجھتے تھے کہ باضابطہ آغاز سے قبل، کسی قسم کی حدبندی کا تعین یا سرخ لکیر کھینچنے سے طالبان بات چیت سے ہچکچائیں گے لیکن کم سے کم ایجنڈے کا تعین کیے بغیر مذاکرات سے بھی ٹی ٹی پی گریزاں ہے۔

یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کی جانب سے مذاکرات کی قرارداد کے باوجود ٹی ٹی پی سخت قسم کی شرائط جیسی باتیں کررہی ہے، جن میں بدستور تیزی آتی جارہی ہے۔ اور ایسا کیوں نہیں ہونا چاہیے؟

لگتا یہی ہے کہ ملکی سیاسی قیادت کو پاکستانی ریاست کی بنیاد کا دفاع کرنے کے مقابلے میں، مذاکرات کی صورت ہونے والی سودے بازی کی فکر کھائے جارہی ہے۔ یہ کمزور اور متذبذب ہیں، کیا اس لمحے سیاسی قیادت کو اس طرح نظر آنا چاہیے؟

انہوں نے مذاکرات کو پہلا آپشن قرار دیا لیکن اس کے طریقہ کار کی خاطر تجاویز اورلائحہ عمل کی تیاری میں ناکام رہے۔ آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں ٹی ٹی پی نے مزید بے لچک (اورپُرتشدد) رویہ اپنایا تو اس میں حیرت کا کوئی پہلو نہیں ہوگا۔