۔ —. فائل فوٹو
پشاور: پشاور ہائی کورٹ نے بروز بدھ دو اکتوبر کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ہدایت کی ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اندر افغانستان کی موبائل فون کمپنیوں کو پاکستان میں رومنگ کی سہولت کی فراہمی بند کردے۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ افغان کمپنیوں کے سم کارڈ دہشت گردی کے بہت سے معاملات اور اغوا برائے تاوان کے معاملات میں استعمال کیے جارہے ہیں۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس ملک منظور حسین پر مشتمل ایک بینچ نے ملک کی تمام موبائل کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹیو کو نوٹس اور قابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جانے کے باوجود عدالت میں غیر موجودگی پر اعتراض کیا۔ ان کو یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پانچ لاکھ روپے کی مالیت کے دو ضمانتی بانڈ بھی جمع کرائیں۔
چیف جسٹس نے پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اشتیاق ابراہیم کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ایک درخواست پر غیر رجسٹرڈ سم کارڈ کے اجراء کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
اس دو رکنی عدالتی بینچ نے پی ٹی اے، وزارت داخلہ، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو تمام غیر رجسٹرڈ یا دیگر ناموں پر لیے گئے سم کارڈز کو بلاک کرنے کا پچھلا حکم دوبارہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس کی رپورٹ عدالت کے سامنے اگلی سماعت 23 اکتوبر تک پیش کی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ اب ان کمپنیوں کو لوگوں کی جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس لیے کہ دہشت گردی سمیت بہت سے سنگین جرائم میں ان کے سم کارڈز کا استعمال کیا جاتا ہے۔
عدالتی بینچ نے افغانستان کی سم کارڈز کے بارے میں پی ٹی اے کو ہدایت کی کہ افغان کمپنیوں کو دی گئی پاکستان میں رومنگ کی سہولت کو پندرہ دن کے اندر بند کردیا جائے۔
پی ٹی اے نے بھی کہا کہ افغانستان کی پوسٹ پیڈ سم کارڈ کی سہولت کو جانچ پڑتال اور وفاقی اور صوبائی حکومت کے مشورے سے دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔
عدالت نے خیبرپختونخوا کے چیف اور ہوم سیکریٹری، ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر اور صوبائی پولیس آفیسر کو ہدایت کی کہ وہ افغانستان کے سم کارڈ کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں، عدالت نے کہا کہ ایک دوسرے ملک کی کمپنیوں کو رومنگ کی سہولت دے کر اپنا دائرہ کار بڑھانے کا موقع دینا پاکستان کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موبائل فون کمپنیوں نے اس طرح ملک سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عدالت نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ ایسے افغان باشندوں کے خلاف سائبر کرائم کے قانون کے تحت مقدمہ درج کریں جو پاکستان میں افغانستان کی موبائل کمپنیوں کے سم کارڈ لے کر آرہے ہیں۔
پی ٹی اے کے زونل ڈائریکٹر کامران گنڈا پور عدالتی بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ رومنگ کی سہولت ایک دوسرے کو دینے کے ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت افغانستان کی یہ موبائل فون کمپنیاں پاکستان میں داخل ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے کسی معاملے میں انہیں پی ٹی اے سے کسی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پچھلی سماعت کے دوران انہوں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ کمپنیوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاہدہ کیا گیا ہے، اور اب انہوں نے اپنا مؤقف تبدیل کرلیا ہے۔
عدالتی بینچ نے حکم دیا کہ ان موبائل فون کمپنیوں کو جو ایسے کسی بین الاقوامی معاہدے کے تحت اپنی سہولتیں کسی ملک میں فراہم کر رہی ہیں ان کو اس ملک کے قانون کی پاسداری کرنی چاہئیے اور وہ ہر صورت جوابدہ ہیں، جبکہ اس ملک کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان کمپنیوں کو پاکستان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ محض اس بناء پر کہ وہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کررہی ہیں، ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ ہمیں لوگوں کی جان و مال کے بدلے میں اس قسم کی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے۔
مقامی سم کارڈز کی رجسٹریشن کے بارے میں کامران گنڈاپور نے بتایا کہ اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے، اس لیے کہ اب کمپنیوں نے غیر رجسٹر سم کارڈز کو بلاک کرنے کے لیے ایک طریقہ کار تیا رکرلیا ہے۔
ان کمپنیوں میں سے ایک کے نمائندے نے عدالتی بینچ کو مطلع کیا کہ انہوں نے ایک انتہائی قیمتی جاسوسی کا نظام اور دیگر مشنری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے کرچکے ہیں، لہٰذا اب کوئی بھی موبائل فون ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں استعمال نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون کمپنیاں قومی سلامتی کے معاملات کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیتی ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں غیر رجسٹرڈ سم کارڈز اور افغانستان کے سم کارڈز کا زیادہ تر استعمال دہشت گردانہ سرگرمیوں میں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کو ایک حکم جاری کرنا چاہئیے کہ مستقبل میں اگر کوئی غیر رجسٹرڈ یا غلط معلومات کے ساتھ رجسٹرڈ کرائی گئی سم کارڈ کا استعمال کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی کارروائی میں کرے گا، تو متعلقہ موبائل کمپنی کا مقامی سربراہ کو بھی اس کیس میں سزادی جائے گی۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل اقبال مہمند نے تصدیق کی کہ افغانستان کی موبائل کمپنیوں کے سم کارڈ غیرقانونی سرگرمیوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔
No comments :
Post a Comment