دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چئرمین جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری سے اندازہ ہوجائے گا کہ کون 'ڈرائیور سیٹ' پر ہے۔ فائل فوٹو۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چئرمین جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری سے اندازہ ہوجائے گا کہ کون 'ڈرائیور سیٹ' پر ہے۔ فائل فوٹو۔

 اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف رواں ہفتے چئرمین جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) جنرل خالد شمیم وائن کے سبکدوش ہونے کے بعد انکے جانشین کے حوالے سے غور و فکر میں مصروف ہیں۔

رسمی سمجھے جانے والے منصب کو اس سے قبل کبھی اس دلچسپی کے ساتھ نہیں دیکھا گیا جبکہ لیک ہوجانے والے ایبٹ آباد کمیشن کے مسودہ میں اسے 'پوسٹ آفس' قرار دیا گیا تھا۔

تاہم آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے توسیع شدہ دور کی وجہ سے ہر کوئی اس بات میں دلچسپی لے رہا ہے تاکہ آرمی کے اگلے بوس کا اندازہ لگایا جاسکے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تقرری سے اندازہ ہوجائے گا کہ کون ڈرائیور سیٹ پر ہے۔ آیا فوج اس منصب کو بر قرار رکھے گی یا اسے دیگر سروسز کو بھی دینے پر تیار ہے۔ اس پیشرفت سے فوج کی دفاعی معاملات پر غلبے کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہہ کہ وزیراعظم کا کیمپ بعد والی پوزیشن کی جدوجہد میں مصروف ہے۔

جنرل وائن ہفتے کے روز ریٹائر ہوجائیں گے تاہم ان کے جانشین کو تاحال نامزد نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ تاہم مسلم لیگ نواز کے چند رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس بات کو جان بوجھ کر راز میں رکھا جارہا ہے اور ایک جانشین کا جلد نام سامنے آجائے گا۔

 اس حوالے سے باضابطہ اعلان ابھی آنا باقی ہے تاہم آرمی اور نیوی کی اس ریس میں پنڈتتوں کے مطابق آرمی کا پلڑا بھاری ہے۔

اگر فوج اس ریس میں کامیاب ہوتی ہے تو امکان ہے کہ لیفٹنینٹ جنرل ہارون اسلم جو کہ فوج کے سینئر ترین رکن ہیں، کو یہ عہدے دے دیا جائے گا جبکہ اگر بحریہ سے چناؤ ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر آصف سندیلہ عہدہ پانے میں کامیاب رہیں گے۔

فوج عہدہ حاصل کے لیے سب سے بڑا امیدوار کیوں؟

اس پوزیشن کو فوج کے ساتھ رکھنے کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کیوں کہ ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سامنا ہے اور مستقبل قریب میں ملک کو زمینی خطرات لاحق ہیں اس لیے اسے فوج کے ساتھ ہی رکھا جائے۔

مزید برآں فوج کا ایک طبقہ یہ مانتا ہے کہ چونکہ نیوکلئیر پروگرام، نیسکام اور دیگر اہم ادارے چیئرمین جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کمیٹی کے دائرہ کار میں براہ راست آتے ہیں اس لیے یہ منصب فوج کے پاس ہی رہنا چاہیئے تاکہ آرمی چیف اور سی جے سی ایس سی کے درمیان خوشگوار تعلقات رہ سکیں۔

تاہم ایک سابق فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس دلیل کو مسترد کیا ہے۔

ایڈمرل سندیلہ گزشتہ تین سال سے کمیٹی کے رکن ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ وہ سروسز کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ نیول چیف کو اس منصب سے نوازنے سے مسلح افواج کے آپسی تعلقات بھی بہتر ہوسکتے ہیں جہاں یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ فوج کو تعلقات پر غلبہ حاصل ہے۔

فضائیہ اور بحریہ کی وسائل کے حوالے سے فوج سے شکایات کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے۔